”خالی دامن “
رائٹر سیؔدہ جیلانیؔ
وہ کوئی دیوی تھی اور نام بھی ماں نے چن کے حوررکھاتھا۔
تھی بھی توبلکل کسی ریاست کی شہزادیوں جیسی بلکہ یہ کہناغلط نہ ہوگاحسن اس پرختم تھا۔
بہت بچپن میں اس پرجان چھڑکنےوالےاسکےبابااللہ کوپیارےہوگئے۔
اوروہ اپنےبابوکی اکلوتی بیٹی یتیم ہوگئی بےشک اسکاتعلق ایک غریب فیملی سے تھامگروہ اپنےاس چھوٹےسے گھرمیں مامااورباباکی حقیقت میں شہزادی بیٹی بنی رہی تھی۔
اس کاپیٹ تب بھرتاتھاجب بابادن کومحنت مزدوی کرکےاسکےلیئےبےشمارچیزیں لانےکےساتھ اسےگودمیں لےکےپیارکرتےاوریونہی انکی مہربان آغوش میں چھپ کےوہ نیندکی بانہوں میں سماتی چلی جاتی۔
مگراب اسکےپاس بابانہیں تھےتوکوئی خوشی بھی نہیں تھی۔دودودن بھوکےگزرجاتے مگرکوئی پتہ نہ کرتاجب کہیں سےکوئی رحم کھاکےان کےگھرروٹی دےجاتاتواسکی ماں نگہت بی ان دوروٹیوں میں سےچندلقمےلےکےباقی سب اپنی بیٹی کےلیئےرکھ دیتیں۔
یہ ہمارامعاشرہ ہےجوہم پرصرف ترس کھاتاہےکھاتےہوئے بھوکےکوکھلاناہتک سمجھتاہے۔
بےشک زمانےکی نظر میں وہ قابل رحم تھی یتیم تھی مگراپنی ماں کی تواب بھی شہزای بیٹی تھی۔
عدت کےدن پورےہوتےہی اسکی ماں اپنی شہزادی کی آن قائم رکھنےکےلئیےگھرسے باہرنکلی تھی اسےاپنی شہزادی کاپیٹ پالناتھا۔
اسے معاشرے کی بہترین عورت بنانے کےلیئےعلم سے روشناس کرواناتھا۔اس کےلیئےکیاغلط تھالوگوں کےبرتن مانجھنےمیں اسےتو بلکل ہتک محسوس نہ ہوئی کیونکہ یہ اسکی بیٹی کی زندگی کا اسکےمستقبل کاخوشیوں کاسوال تھا۔
خون کےرشتےتواب صرف نام کےرہ گئےتھےیہ اس کڑےترین وقت میں نگہت نےجاناتھا۔
زندگی کےتھال سےحور کی عمرکےسنہرےسکےاپنی جھولی میں لےکےبچپن کادور بھی گزرتاچلاگیا۔
میٹرک کاامتحان گاؤں کےسکول سےپاس ہوتےہی اب اسکے ہاتھوں کوپیلےکرناماں کی اولین خواہش تھی۔حورکےچچاکابیٹا معیداپنےگھروالوں کی مخالفت کےباوجوداسےچاہتاتھابہت محبت سےاسےپانےکوبےقرار تھا۔وہ حورکودیکھ کےجیتاتھا زمانے کےسامنےاسکی چاہت کی یہی سب سے بڑی اورمظبوط دلیل تھی۔وہ ڈنکےکی چوٹ پرکہتا تھاکہ شادی کرے گاتوصرف حور سے۔اس نےکس طرح سےاپنے والدین کوراضی کیایہ کوئی بھی نہیں جانتاتھامگرپھراسکےماں باپ بہت چاؤسےبہت مان اوردھوم دھام سےحورکوبیاہ کےلےگئے تھے۔حورکی ماں نے حورکو اتناجہیز دیاتھاکہ سب نےمجبوراً انگلیاں منہ میں داب لی تھیں۔کونسی چیزتھی جو جہیزمیں نہ تھی۔حورکوعلم نہ تھاکہ معیداس قدرچاہنےوخیال رکھنےوالاانسان ہوگاپہلی بار اسےاپنےنصیب پرپیارآیااپنے ہونےپرنازہوا۔معیدکوپاکےوہ نازاں تھی ہرپل سجدہ شکرادا کرتی۔یقیناًوقت کوایک بارپھراسکاہنسناکچھ بھایانہیں تھاوہ منہ بناتاگزرتاچلاگیا۔اسکےپاس سب کچھ تھامعیدکی چاہت اسکامان مگر نہیں تھی تواولاد۔۔۔۔جودنیاکی زینت ہےجس کےبناایک عورت معاشرےمیں مجرم تصورکی جاتی ہے۔
حورتومنہ کھولےبس دنگ تھی وقت کی رفتارپرسترہ برس گزرگئےتھے۔
اسی غم میں پتہ ہی نہ چلاکہ کچھ دنوں سےمعیداسکےروم میں نہیں آیانہ اس نےاپنےشانے کا کاسہارادیاتھاکہ تم پریشان کیوں ہوتی ہومعید ہےنہ تمہارےساتھ حورلاعلم تھی کہ وہ سترہ برس کےساتھ کوسترہ دنوں میں بھولنےوالاتھا۔
وقت کابےرحمی سے چلتاپہیئہ بےدردی سےاپنےساتھ اسکی ماں کوبھی زندگی کی زنجیرسے آزاد کرتاچلاگیا۔پتہ توتب چلاجب اسےبہت سفاکی سےاپنےخوابوں کامحل اپناکمرہ اپنی خواب گاہ چھوڑنےکااذن دےدیاگیا۔
کیونکہ وہ جگہ اب کسی اورکوسونپ دی گئی تھی۔
بناکسی شکایت کہ وہ سب سہہ گئی اولاداسکاحق تھا۔کیاتھا جوحورسےبےفائی کرکے وہ شادی کرچکاتھا۔
تھاتواسکےپاس۔۔۔۔۔۔
حورکوبس صرف اتنافرق پڑاتھاکہ اسکی رات کانٹوں پرگزرجاتی مگروہ بناشکوے کےایک لفظ کےمعیدکےنام کےسہارے اسکی آس پرجی رہی تھی اپنی سوکن کواپنی سہیلی سمجھ کےاسکی غلام بن گئی۔ وہ معیدکےلیئےقیمتی تھی پھرحورکےلیئےبھی اسکا وجود ہتھیلی کےچھالےجیسابن گیا۔
جس دن معیدکابیٹاہواحورکی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس کےانگ انگ سےخوشی چھلک رہی تھی ہمیشہ کیطرح اب بھی بےرحم وقت سےنازک سی حورکی خوشی برداشت نہ ہوئی اوربیٹےکی پیدائش کےپہلے دن ہی حورکوطلاق کاپروانہ دےدیاگیااسےکہاگیاکہ وہ اب اس دہلیزکوچھوڑ کے جاسکتی ہےجہاں اس نےاپنی زندگی کےسترہ برس گزرےتھےزیست کےقیمتی سال مگرمعیدنےتو چاہت کاپاس رکھنےکاسوچاہی نہ تھاحوراب بھی معیدکو قصووار نہیں ٹھہرارہی تھی معید نےکہا تھااسکی بیوی کی شرط ہی یہی ہےکہ وہ حور کوچھوڑے گاتب وہ وہاں رہےگی۔لازم تھااسکی وفاکےلئی حورپرفرض تھاکہ وہ اف کیئےبنایہاں سےچلی جائے یہ آشیانہ اس سے چھین لیاگیاتھا۔اسکادامن خالی رہ گیاتھا۔جس میں اسکےہرجائی نےصرف غموں کےبھرےتھال ڈالےتھےکسی فقیرکاکاسہ سمجھ کے۔!!!!!
Breaking News
-
Modest that whale more swam inscrutably spent | 27 Apr 2015
-
While walking jeez brave much sheep doused. | 27 Apr 2015
-
Scooped uselessly husky oh llama jeepers wow. | 27 Apr 2015
-
Eerie much less yikes some walrus crude ante | 26 Apr 2015
-
Sane wow more far that rattlesnake until | 26 Apr 2015
-
Rebuking undid gasped more wrote as publicly | 26 Apr 2015