” انصاف کی بنیاد “
زیست فاطمہ عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل پانچ حرفوں پر مبنی "ا ن ص ا ف" کسی سے مانگنا بہت آسان کام بنا ہوا ہے مگر اسے قائم کرنا پہاڑ سر کرنے برابر کے کیونکہ اسے قائم کرنے کے لیے راستہ ہی غلط چنا جاتا ہے۔لفاظی کا راستہ۔۔۔۔اپنے گریباں میں جھانکے بنا دھواں دار تقاریر کیجیے۔۔الزامات کی بوچھاڑ کیجیے۔۔کیچڑ اچھالیے اور سمجھیے یوں انصاف قائم ہوگیا۔ وہ انسان کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپاتا جو دوسروں کو تو نصیحت کرے پر خود عمل نہ کرتا ہو۔ "اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت" کی مثال ایسے لوگ پر سو فیصد اترتی معلوم ہوتی ہے۔جو عمل سے زیادہ لفاظی کو ترجیح دیتےہیں۔
مجذوبٓ
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
جس طرح ہر کام کرنے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اسی طرح "انصاف پر مبنی تبدیلی" لانے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کی راہ میں پتھر وغیرہ بکھرے ہوئے ہیں اور آپ کو پہنچنا ہے پہاڑ کی چوٹی سرکرنے تو سوچیے تو زرا کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ پتھروں کوصاف کیے بنا راستہ بنائے بغیر ہی پہاڑ کی چوٹی پر فتح کے جھنڈا گاڑتے ہوئے اسے سر کرآئیں؟؟۔
اگر تو آپ ان پتھروں پر چل کر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں سمیٹنے کی قطعا ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں تو یقیناً یہ عمل جہالت کا عملی ثبوت کہلانے کے ساتھ بےوقوفی اور حماقت جانا جائے گا۔ دوسری مثال دیکھیے کہ آپ جب زمانہ طالب علمی میں امتحان گاہ میں سوالیہ پرچا تھامتے ہیں تو ساتھ ہی کانوں میں استاد محترم کی آواز گردش کرنے لگتی ہے کہ بچوں پہلے مختصر حصہ حل کرنا پھر انشائیہ۔اسی طرح جب آپ گھر کی صفائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں تو ایک دم جھاڑو پکڑ کر صفائی شروع نہیں کردیتے بلکہ پہلے چھوٹی موٹی چیزوں کو ٹھکانے لگاتے ہیں پھر جھاڑو سے صفائی کا کام سر انجام دیتے ہیں۔عموما مدارس میں یا گھروں میں بھی جب بچوں کو قرآن حفظ و ناظرہ پڑھایاجاتا ہے تو سب سے پہلے تیسواں پارہ پڑھانے کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ اس میں آسان اور چھوٹی سورتیں ہوتی ہیں تو بچہ آسانی سے پڑھتا ہوا خود کو آگے کے مشکل پاروں کے لیے تیار پاتا ہے۔اسی طرح آپ زندگی کا کوئی بھی پہلو اٹھا کردیکھ لیں وہاں آپ کو یہ سنہرا اصول لازمی لاگو ہوتا دکھائی دے گا۔ انصاف بھی ہماری زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے تو پھر جب اسے قائم کرنے کی بات آتی ہے تو یہ اصول کیوں پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔کیوں پڑھے لکھے سیاستدان سے لے کر ایک معمولی چپڑاسی یہ نہیں سمجھ پارہا کہ انصاف کو بھی پہلے چھوٹے موٹے پہلوؤں یں قائم کیا جائے ۔اور جب چھوٹے پہلوں میں انصاف قائم ہوجائے اب چاہے وہ معاشرتی ہیں گھریلو ہیں قومی سطح پر ہیں ،اگر ان پہلوؤں میں انصاف قائم ہوگیا تو یقین جانیے ہورے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوجائے گا۔اگر آپ ملازم ہیں تو اپنی ملازمت کے دوران بے ایمانی ،رشوت خوری سستی کاہلی جیسے برے افعال سے بچیے اور سمجھ لیجیے انصاف قائم ہوگیا۔آپ اگر مالک ہیں تو تمام ورکرز کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھیے۔یہ نہیں کہ کوئی
منظور نظر ہے تو اس پر عنایتوں کی بوچھاڑ کردیں۔باقی
سب کو مسکرا کر سلام کا جواب ینا بھی پسند نہ کریں۔آپ کسی مجلے میں ادارت کا فریضہ سر انجام دے ہے ہیں تو
وہاں انصاف قائم کیجیے۔لکھاریوں کو محنت کا معقول
معاوضہ ادا کیجیے ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لکھاریوں کے ساتھ اچھی علیک سلیک ہے تو ان کی تحاریر و
مضامین دھڑا دھڑ لگائے جاتے ہیں باقی سب کو صبر کی سرنج لگادی جاتی ہے۔یہی اگر آپ استاد کے مقدس درجےپر فائز ہیں تو وہاں انصاف کی بنیاد رکھیے۔عموما یہ بات مشاہدے کا حصہ بنتی ہے کہ استاد ان بچوں کو زیادہ توجہ دیتے ہیں جن کے والدین ہفتہ وار لمبی لمبی ملاقتیں
کرتےہیں یا یہ بھی دیکھنے یں آیا ہے کہ اساتذہ ان بچوں
کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں جو خوبصورت ہوں امیر
یا پھر چاپلوس۔سب سے آگے نشست پر بیٹھا بچہ بھی استاد
کی توجہ و نگاہ کا محور بنتا ہے باقی سب آخری بنچ پر بیٹھنے والے بچوں کو نالائق کہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔جبکہ استاد کا کام ہی بچے پر جان توڑ محنت کرتے ہوئے اس کی ذہنی و تعلیمی استعداد کو بہتر بنانا ہے۔بہرحال ہر شعبے میں ،زندگی کے ہر پہلو میں کہیں نہ کہیں نا انصافی ضرور ہوتی ہے اور یہ نہیں کہ اسے کوئی ٹھیک
کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے ۔۔۔کرتا ہےضرور کرتا ہے مگر ناانصاف۔۔۔بد دیانت۔۔۔بد نیت۔۔غاصب لوگ ایسے نیک اوصاف کے لوگوں کو پل بھر برداشت نہیں کرتےہیں۔کیونکہ ان کے منہ نا انصافی کا خون جو لگ چکا ہوتاہے۔ایسے میں انہیں انصاف کا ذائقہ بہت کڑوا اور بدمزہ محسوس ہوتا ہے۔اب تھوڑی دیر کے لیے آپ ان سب باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئےماضی کے پردے چاک کیجیے اور اپنے بچپن یا اپنے بچوں کے بچپن میں جھانکیے آپ فورا پتا چل جائے گا کہ انصاف کی بنیاد دراصل رکھنی کہاں ہوتی ہے۔جس طرح ایک عمارت کی بنیاد اینٹوں بجری پتھروں سے رکھی جاتی ہے اسی طرح بچوں کی شخصی عمارت کی بنیاد میں انصاف ایک لازمی جزو ہے۔
ہر ذی شعور جانتا ہے کہ بچوں کو بچپن میں جو سکھایا جائے ان کے سامنے کیا جائے وہ وہی کرتے ہیں اور جیسا سلوک
ان کے ساتھ روا رکھا جائے وہ اسے بدلے میں اپنالیتے
ہیں۔عموما گھروں میں پہلوٹی کی اولاد کو زیادہ پیار دیا جاتا ہے اور اس کی ہر جائز ناجائز خواہش کو بلاجھجھک پورا کیا جاتا ہے۔مشاہدے میں ایسے ماں باپ بھی ہیں جو اس بچے
سے زیادہ پیار کرتے ہیں جو زیادہ خوبصورت ہو یا ذہین۔ اور ہمیشہ وہ بچہ کم پیار کا مستحق ٹہرتا ہے جو کند ذہن اور
کم صورت ہو۔اکثروالدین بچوں کی خریداری کرتے وقت
بھی ان کی کی خوبصورتی کو مد نظر رکھ کر کرتے
ہیں۔جو سب زیادہ خوبصورت صاف نگ کا ہے اس کے لیے
کھلتے ہوئے رنگ اور بہترین چیز کا انتخاب جبکہ کم صورت یا کم ذہین بچے ک لیے ان کی پسند خود بخود بدل جاتی ہے۔ماں باپ کے اسیے رویے کی وجہ سے بچہ ہر اچھی چیز پر اپنا حق سمجھتا ہے اور آگے جاکر یہ اپنے بہن بھائیوں کے علاوہ کسی کے پاس بھی کوئی اچھی چیز دیکھتا تو اسے چیھننے کی کوشش کرتا ہے۔اور حق مارنے سے بھی
نہیں چوکتا۔بہت سے گھروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ
پہلوٹی کی اولاد کی ہر غلطی معاف ہوتی ہے،چاہے وہ
چھوٹے بہن بھائیوں کا حق ماریں ۔۔۔ان کا مضحکہ اڑائیں ان
کو اس برے فعل پر کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔چھوٹے ہمت
کرتے ہوئے شکایت کی آڑ میں اپنے لیے انصاف کی آواز
بلند کیں بھی تو انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ وہ بڑے
ہیں۔ان تمام دل شکن رویوں سےدوسرے بچے کے اندر توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہے پھر وہ زندگی کے ہر شعبے میں یا تو اپنا حق گنوا دیتا ہے یا اس کی طبیعت شدت پسندی کی
طرف مائل ہوجاتی ہے۔
اگر وہ شعور کی منزل پہ پہلا قدم رکھتے ہی اپنے گھر میں
حضور اکرم ﷺ کا یہ خوبصورت ارشاد رائج دیکھے گا کہ کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر ،گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر فوقیت حاصل نہیں سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔تو وہ پھر زندگی کےہر قدم پر گھر میں حضور اکرم ﷺ کا رائج شدہ ارشاد کی روشنی
میں انصاف کا بولا بالا کرے گا پھر کسی غریب حق نہیں مارا جائے گا ۔۔کوئی اقتدار کے نشے میں مست انسانوں سے خود کو افضل سمجھتےہوئے انہیں حقیر نہیں جانے گا۔ اگرچہ یہ سب باتیں پڑھنے میں تو آپ کو بہت معمولی سی باتیں لگ رہی ہیں مگر یقین جانیے یہ باتیں کچے ذہنوں پر خطرناک حد تک اثرانداز ہوتی ہیں۔یاد رکھیے آپ اپنے بچے
کو انصاف دیں گے آپ کا بچہ آگے انصاف قائم کر پائے۔خود
ہی سوچیے جب بچہ بچپن ہی سے ناانصافی، بددیانتی پر مبنی ماحول میں پرورش پائے گا تو وہ اپنی آئیندہ زندگی میں کیسے انصاف کی فضا بنا پائے گا کیونکہ وہ تو انصاف کے مفہوم اور اس سے عملاً طور پر متعارف ہی نہیں ہے۔اس لیے ملکی سطح پر انصاف پر مبنی تبدیلی کے
خواہش مند اپنے گھروں میں انصاف کی بنیاد رکھیے۔اپنے
استاد ماں باپ عزیزواقارب،پڑوسیوں،ناداروں، یتیموں ،بیواؤں،بیوی اور بچوں میں صاف بانٹیے۔ برابری کی سطح پر حقوق دیجیے ۔یقین کیجیے آپ کا بچہ بڑا ہوکر زندگی کی
منزل پر قدم دھرے گا ہاں ہر سو انصاف کا چرچا ہوگا۔آپ کا یہ بچہ اپنی بنیادوں میں انصاف اور برابری کی سطح پر حقوق پائے گا تو چار شادیاں بھی بخوبی نباہ سکے گا۔والدین،بہن بھائیوں اور بیوی غرض ہر رشتے کو اس کے
اصل مقام پر رکھتے ہوئے ایک کامیاب زندگی جیے گا اور
اس کی زندگی کے اثرات معاشرے پر نہ پڑے یہ ہونہیں سکتا کہ فرد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے۔یہی بچہ پولیس میں جاکر بنا رشوت لیے اپنا فرض منصبی بخوبی نباہ پائے گا۔عالم بنے گا تو قول و فعل میں تضاد نہ آنے دے گا۔اور
یوں اپنے علم کے ساتھ بھرپور انصاف کرے گا۔اور جب یہی بچہ ایوانوں اقتداروں کا رخ کرے گا تو وہاں بھی اپنی تربیت
میں رچے بسے انصاف کی وجہ سے آسانی سے لفظ انصاف کو فتح کرلے گا۔سو آج سے ملکی سطح پر انصاف کے خواہش مند گھریلو سطح پر انصاف قائم کرنے کا عہد کریں۔انصاف گلی گلی پہنچ جائے گا۔
جزاک اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔